کتنی بار تو انسانیت کو مارے گا بتا؟
کب تک تو کائینات کو رلائے گا بتا؟
کعبة سے تو کرارؑ کو کرپایا نہ ختم
کب تک تو دیواروں سے مٹائے گا بتا؟
نامِ حق سے باطل تیرا کام ہے منافق
کب تک تو حق کو جھٹلائے گا بتا؟
تیری سیاہ روح، نہ کوئلہ، ہے جہنم کا ایندھن
کب تک تو جلتے در سے منہ موڑے کا بتا؟
آتا ہے بقية اللّٰهؑ اور دَورِ عدل و انصاف
کب تک تو اپنے انجام سے بھاگے گا بتا؟
تو نے بہایا نہ صرف آب تو نے بہایا ہے لہو
کب تک تو منتظر کو اس سے لکھوائے گا بتا؟
حوائج
آؤ ذرا لہر و ہوا دیکھنے چلیں
ساحل سے ذرا کچھ لینے چلیں
جیب میں اشیاء نہ کہیں ملیں
بس آس کا علم ساتھ لے کے چلیں
آؤ اس راہ پر قدم تو رکھیں
باب الحوئج سے ذرا ملنے چلیں
ہاتھوں سے تڑپتی آنکھوں کو ملیں
کچھ اشک ذرا کوثر تک چھوڑنے چلیں
دل کھول کر اس کریم کو مخاتب کریں
واسطہِ عظیم پھر دیتے چلیں
بےبازو سے ہاتھ جوڑ کے کہیں
اس چھپے کو سامنے رکھ کے چلیں
سانسِ سکون لے کر اب آگے بڑھیں
آؤ منتظر اب سفر طے کر کے چلیں