حوائج
آؤ ذرا لہر و ہوا دیکھنے چلیں
ساحل سے ذرا کچھ لینے چلیں
جیب میں اشیاء نہ کہیں ملیں
بس آس کا علم ساتھ لے کے چلیں
آؤ اس راہ پر قدم تو رکھیں
باب الحوئج سے ذرا ملنے چلیں
ہاتھوں سے تڑپتی آنکھوں کو ملیں
کچھ اشک ذرا کوثر تک چھوڑنے چلیں
دل کھول کر اس کریم کو مخاتب کریں
واسطہِ عظیم پھر دیتے چلیں
بےبازو سے ہاتھ جوڑ کے کہیں
اس چھپے کو سامنے رکھ کے چلیں
سانسِ سکون لے کر اب آگے بڑھیں
آؤ منتظر اب سفر طے کر کے چلیں
کتنی بار تو انسانیت کو مارے گا بتا؟
کب تک تو کائینات کو رلائے گا بتا؟
کعبة سے تو کرارؑ کو کرپایا نہ ختم
کب تک تو دیواروں سے مٹائے گا بتا؟
نامِ حق سے باطل تیرا کام ہے منافق
کب تک تو حق کو جھٹلائے گا بتا؟
تیری سیاہ روح، نہ کوئلہ، ہے جہنم کا ایندھن
کب تک تو جلتے در سے منہ موڑے کا بتا؟
آتا ہے بقية اللّٰهؑ اور دَورِ عدل و انصاف
کب تک تو اپنے انجام سے بھاگے گا بتا؟
تو نے بہایا نہ صرف آب تو نے بہایا ہے لہو
کب تک تو منتظر کو اس سے لکھوائے گا بتا؟
کتنوں کو تم اس فانی جہاں میں سختیاں دو گے؟
کتنوں کو تم اس زندگی سے جلد جدا کرو گے؟
اے ظالموں سنو، تمہارے تو وارث بھی نہیں
مظلوم کے وارثوں کو تم تو جانتے تک بھی نہیں
اگر جان لو انہیں تو تم کچھ نہ سہہ سکو گے
ہاں اب منتظر سے دُور ہمارا دَور بھی نہیں
سیاہ پوش، سفید عمل، سپاہِ الٰہی
مقامِ حق، تو سودا دنیاوی تنہائی
گریہِ شاہ پیشِ نظرِ اُلٹ، مگر حملہ
تو حاضر شاہِ فردوس اور استقبالِ غازی
آنسو و لہو باہم عطا سرِ مصلّیٰ
اطمینان تآ اختتام، کہ راہ ہے نورانی
ظالم کی صدا صرف پھونک، نہ سدا
شرط کہ وقت بعدِ ایامِ کمائی
واسطہِ عظیم، مصروفِ سجدہِ دعا
حاجتِ منتظر ہو قبول یا الٰہی